- یہ دل ہمارا محبّت میں گرچہ طاق نہ تھا
مگر کچھ ایسا بھی بےگانہِ مذاق نہ تھا - تِرا خیال، تِرے خواب اور تِری خواہش
سکوں ہمیں کسی کروٹ شبِ فراق نہ تھا - اوٹھا ہی لیتے غمِ زندگی کا بار، مگر
یہ شرط تھی کہ غمِ یار ہم پہ شاق نہ تھا - وہ شوخ کتنی سفائ سے لے گیا بازی
قمارِعشق میں دل اپنا چست و چاق نہ تھا - اب آگے ذکر بھی کیا کیجئے رقیبوں کا
کہ دوستوں ہی سے جب اپنا اِیتّفاق نہ تھا - لباس تن کو مُیسّر نہ سر کو چھت تھی نصیب
مگر مزاج میں کب شاہی طمطراق نہ تھا - گو اُس کا حصن ہی اِک حصن تھا جہاں بھر میں
ہمارا عشق بھی اِک عشق تھا مذاق نہ تھا - جہاں بھی چاہا اُسے سجدہ کر لئا میں نے
مِرا خُدا کبھی پابندِ باب و طاق نہ تھا - رہِ وفا میں وہ کیوں ساتھ میرا چھوڑ گئا
سفر کا شوق تھا منزل کا اِسشتیاق نہ تھا؟
اور مقطع عرض ہے، کہ - - علاج ہمنے بھی ڈھونڈا بہت، مگر افسوس!
تمہیں تو عشق تھا، خورشید جی! مراق نہ تھا
جمعه، آذر ۰۲، ۱۳۸۶
[غزل] یہ دل ہمارا محبّت میں گرچہ تاق نہ تھا
اشتراک در:
پستها (Atom)