جمعه، آذر ۰۲، ۱۳۸۶

[غزل] یہ دل ہمارا محبّت میں گرچہ تاق نہ تھا


  1. یہ دل ہمارا محبّت میں گرچہ طاق نہ تھا
    مگر کچھ ایسا بھی بےگانہِ مذاق نہ تھا
  2. تِرا خیال، تِرے خواب اور تِری خواہش
    سکوں ہمیں کسی کروٹ شبِ فراق نہ تھا
  3. اوٹھا ہی لیتے غمِ زندگی کا بار، مگر
    یہ شرط تھی کہ غمِ یار ہم پہ شاق نہ تھا
  4. وہ شوخ کتنی سفائ سے لے گیا بازی
    قمارِعشق میں دل اپنا چست و چاق نہ تھا
  5. اب آگے ذکر بھی کیا کیجئے رقیبوں کا
    کہ دوستوں ہی سے جب اپنا اِیتّفاق نہ تھا
  6. لباس تن کو مُیسّر نہ سر کو چھت تھی نصیب
    مگر مزاج میں کب شاہی طمطراق نہ تھا
  7. گو اُس کا حصن ہی اِک حصن تھا جہاں بھر میں
    ہمارا عشق بھی اِک عشق تھا مذاق نہ تھا
  8. جہاں بھی چاہا اُسے سجدہ کر لئا میں نے
    مِرا خُدا کبھی پابندِ باب و طاق نہ تھا
  9. رہِ وفا میں وہ کیوں ساتھ میرا چھوڑ گئا
    سفر کا شوق تھا منزل کا اِسشتیاق نہ تھا؟

    اور مقطع عرض ہے، کہ -

  10. علاج ہمنے بھی ڈھونڈا بہت، مگر افسوس!
    تمہیں تو عشق تھا، خورشید جی! مراق نہ تھا